63اےتشریح: فیصلے سے اختلاف کرنیوالا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں،چیف جسٹس

0
14

آرٹیکل 63اےکی تشریح کےدوران چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےریمارکس دئیےکہ جو لوگ سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں انہیں ضمیر والا سمجھیں یا نہیں، فیصلے سے اختلاف کرنیوالا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں۔ ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ تم باضمیر نہیں ہو۔
سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اےکی تشریح سےمتعلق نظرثانی اپیلوں پرسماعت چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین، جسٹس مظہر عالم، جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم افغان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے کی ۔
لارجربینچ میں جسٹس منیب اخترکی جگہ جسٹس نعیم افغان کوشامل کیاگیا اور چیف جسٹس نے کمیٹی میٹنگ اورجسٹس منیب اختر کے حوالے سےسماعت کےشروع میں آگاہ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کو کل سماعت کے بعد بینچ میں شمولیت کی درخواست بھیجی گئی مگر انہوں نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی، میں نے کمیٹی میں جسٹس منصورعلی شاہ کو شامل کرنے کی سفارش کی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بتایا کہ ججز کمیٹی کو 9 بجے بلایا گیا اور جسٹس منصور علی شاہ کا انتظار کیاگیا، جسٹس منصورکے آفس سے بھی رابطہ کیاگیا مگر ان کی جانب سے انکار کیاگیا جس کی وجہ سے ہمارے پاس کوئی آپشن نہیں بچا۔ میں نہیں چاہتا دوسرے ججز کو ڈسٹرب کیاجائے اس لیے نعیم افغان کو نئے لارجر بینچ میں شامل کرلیاگیا۔
پی ٹی آئی کےوکیل علی ظفرنےسماعت کے آغازپربینچ پراعتراض اٹھادیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کو بعد میں سنیں گے۔
صدرسپریم کورٹ بارشہزادشوکت کےدلائل:
شہزادشوکت نےکہاکہ اس کیس میں صدارتی ریفرنس بھی تھا اور 184/3 کی درخواستیں بھی تھیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس پر رائے اور 184/3 دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں، دونوں کو یکجا کرکے فیصلہ کیسے دیا جاسکتا ہے؟ صدراتی ریفرنس پر صرف رائے دی جاسکتی ہے، فیصلہ نہیں دیا جاسکتا۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ اس وقت عارف علوی صدر مملکت تھے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہی حکومت بطورِحکومت بھی اس کیس میں درخواست گزار تھی، صدر کی جانب سے قانونی سوالات کیا اٹھائے گئے تھے؟ شہزاد شوکت نے بتایا کہ صدر پاکستان نے ریفرنس میں چار سوالات اٹھائے تھے۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا فیصلے میں منحرف ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا بھی لکھا گیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ منحرف ارکان کا ووٹ کاسٹ نہیں ہوگا، ڈی سیٹ کرنے کا حکم فیصلے میں نہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ آئین میں تحریک عدم اعتماد، وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کا انتخاب اور منی بل کی وضاحت موجود ہے، جب آئین واضح ہے تو اس میں اپنی طرف سے کیسے کچھ شامل کیا جاسکتا ہے۔ برطانیہ میں حال ہی میں ایک ہی جماعت نے اپنے وزیراعظم تبدیل کیے، اس دوران جماعت نے ہاؤس میں اکثریت بھی نہیں کھوئی۔
شہزاد شوکت نے کہا کہ فیصلے میں کہاگیا انحراف کرپٹ پریکٹس جیسا ہے، فیصلے میں کہاگیاکہ کوئی ایک مثال موجود نہیں جس میں انحراف ضمیر کی آواز پر کیا گیا ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کے ضمیر کا معاملہ طے کرنا مشکل ہے، کیا فیصلہ آرٹیکل 95 اور 163 کو متاثر نہیں کرتا؟ کیا پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے جیسا نہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ جو لوگ سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں انہیں ضمیر والا سمجھیں یا نہیں، فیصلے سے اختلاف کرنے والا جج بھی باضمیر ہوگا یا نہیں، ہم کون ہوتے ہیں کہنے والے کہ تم باضمیر نہیں ہو۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت نے دلائل دیے کہ فیصلے میں رضا ربانی کا حوالہ بھی دیاگیا کہ انہوں نے ضمیر کیخلاف جاکر پارٹی کو ووٹ دیا، پارٹی سربراہ اور پارلیمانی پارٹی سربراہ الگ الگ ہدایات دیں تو کیا ہوگا؟ ایسے میں تعین کیسے کیا جاسکتا ہے کہ کس کی ہدایات ماننا ضمیر کی آواز ہوگا؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل62/1ایف پر جسٹس منصورعلی شاہ کا فیصلہ موجود ہے،فیصلے میں وضاحت موجود ہے نااہلی سے متعلق کونسی شقیں ازخود نافذ ہوتی ہیں اورکونسی نہیں۔
وکیل شہزادشوکت نے استدعا کی کہ گزارش ہےکہ فیصلے کو واپس لیاجائے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں فیصلے میں کیا غلط ہے؟ شہزادشوکت نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ آئین دوبارہ لکھنے جیسا ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ فیصلہ صرف یہ نہیں کہتا آپ کا ووٹ گنا نہیں جائے گا، فیصلہ کہتا ہے پارٹی کہے تو ووٹ لازمی کرنا ہے، پارٹی کےکہنے پر ووٹ نہ کرنے پر رکن کے خلاف کارروائی کا کہاں گیا ہے؟

Leave a reply