بنگلہ دیش میں بحران: حالات کا پس منظر

رپورٹ:عتیق ملک
0
40

جنوبی ایشیا کے کسی نہ کسی خطے میں حالات ہردور میں کشیدہ رہتے ہیں۔ ان دنوں بنگلہ دیش میں کشیدہ صورتحال اور وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے مستعفی ہونے اور ملک سے فرار ہونے کی خبریں دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں نظر آرہی ہیں۔
بنگلہ دیش میں کشیدگی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
شیخ حسینہ واجد کو فرار کے بعد بھارت میں پناہ کیوں لینا پڑی؟
بنگلہ دیش کا عبوری کنٹرول سنبھالنے والا آرمی چیف کون؟
وزیراعظم کے استعفے کے بعد طلبا تنظیمیں ابھر کر سامنے کیوں آئیں؟ اور انہوں نے آئندہ حکومت کیلئے کونسی شرائط رکھی ہیں؟
اپوزیشن رہنما خالدہ ضیا اور انکی جماعت کا مسقتبل کی سیاست میں کیا کردار ہے؟ ان تمام سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کا پس منظر جانتے ہیں۔
مسلسل چوتھی مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم منتخب ہونےوالی حسینہ واجد کا سیاسی زوال اس وقت شروع ہوا جب بنگلہ دیشی ہائیکورٹ نے جون 2024میں کوٹہ سسٹم میں اضافے کا فیصلہ سنایا ۔ اس فیصلے کے خلاف طلبہ تنظیمیں سڑکوں پر آگئی۔ گو کہ حسینہ واجد کو وزاعظم کاعہدہ سنبھالنے کےبعد مختلف حکومت مخالف تحریکوں کا سامنا رہا مگر19 قاتلانہ حملوں میں بچ جانے والی حسینہ واجد طلبہ احتجاج کے سامنے نہ ٹھہر سکیں۔
15 جولائی سے21 جولائی 2024 تک طلبہ تنظیموں کے احتجاج میں شدت آتی گئی جسے بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد نے طاقت کے استعمال سے روکنے کی کوشش کی، طاقت کے اس استعمال سے 250 سے زائد مظاہرین ہلاک اور 13 پولیس اہلکا ر بھی جان کی بازی ہار گئے۔ ریاستی مشینری کے استعمال کے باوجود طلبا اپنے احتجاج پر ڈٹے رہے۔ مظاہرین نے پہلے مرحلے میں جاں بحق مظاہرین کے انصاف کا مطالبہ کیا، جو بعدازاں حسینہ واجد کے استعفیٰ کے ون پوائینٹ ایجنڈا تک پہنچ گیا۔ جب حالات بے قابو نظرآنے لگے، حسینہ واجد کو اپنا اقتدار اور جان خطرے میں محسوس ہونے لگی، تو انہیں بلآخر مظاہرین کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑے، انہوں نے استعفیٰ دیا اور اپنی فوج کے شیلٹر میں پڑوسی ملک بھارت پناہ کی غرض سے روانہ ہوگئیں۔
اگرچہ حالات بے قابو ہونے پر بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کےلئے متنازعہ کوٹہ ختم ترانوے فیصد ملازمتیں میرٹ پر دینے کا اعلان تو کردیا، مگر اب پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا تھا، لاوا آتش فشاں بن چکا ہے۔
حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد یہ سوال اٹھنے لگے کہ انہوں نے بھارت میں پناہ لینا کیوں پسند کیا۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ فرار ہونے کیلئے حسینہ واجد نے اپنی بہن کے ہمراہ بھارت میں پناہ لینے کا فیصلہ ہی کیوں کیا؟ اور اپنی بہن کو ساتھ لیکر کیوں گئیں۔ ؟
بنگلہ دیش کے بانی صدر شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی حسینہ واجد 1981 سے عوامی لیگ پارٹی کی قیادت کررہی ہیں۔
بھارتی حمایت سے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے والے شیخ مجیب الرحمٰن تو چند سال بعد ہی انیس سو پچہتر میں ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے تھے، مگرآئندہ اقتدار میں آنے تک انکی بیٹی حسینہ واجد کو بھارت کی سرپرستی حاصل رہی، بھارت اور حسینہ واجد کی قربت کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش کو خصوصی فنڈنگ اور سیاسی معاملات میں مدد فراہم کی جاتی رہی۔ اسی لیے بنگلہ دیش میں حالات کشیدہ ہونے پر بھارت نے انہیں پناہ دینے کا اعلان کیا اورحسینہ واجد کو ہندان ائیر بیس سے بھارت کے سیف ہاؤس میں منتقل کیا ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حسینہ واجد اب برطانیہ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔
ذرائع کے مطابق حسینہ واجد کےلئے برطانیہ میں سیاسی پناہ اس لئے بھی آسان ہوگئی کیونکہ انکی بہن ریحانہ واجد برطانوی شہری ہیں اور انکی بھانجی ٹیولپ صدیق لیبر پارٹی کی جانب سے برطانوی پارلیمنٹ کی رکن بھی ہیں۔
حسینہ واجد کی غیر موجودگی میں بنگلہ دیش کے آرمی چیف کا کردار اہمیت اختیار کرگیا۔ امن و امان کی صورت حال پر اگرچہ عوام کی نظریں ان پر مرکوز تھیں، لیکن اس خبر کے بعد حسینہ واجد مخالف حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی، کہ آرمی چیف وقار الزمان بھی حسینہ واجد کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ یوں مظاہرین کا اعتماد ان سے متزلزل ہونے لگا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق جنرل وقار الزماں نے 24 دسمبر 1997 سے 23 دسمبر 2000 تک بنگلہ دیش آرمی چیف جنرل مستفیض الرحمان کی بیٹی سارہ ناز کمالیکا رحمان سے شادی کی اور ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ جنرل (ریٹائرڈ) مستفیض الرحمان حسینہ واجد کے رشتے میں پھوپھا ہیں، اس طرح سارہ ناز حسینہ واجد کی کزن ہیں۔ انہوں نے حسینہ واجد کے ساتھ قریبی اسٹاف کے طور پر کام بھی کیا،انہوں نے وزیر اعظم ہاؤس کے زیرانتظام آرمڈ فورسز ڈویژن میں پرنسپل اسٹاف آفیسر کے طور پربھی خدمات انجام دیں۔
بنگلہ دیش کی اس ہنگامی صورتحال میں طلبا تنظیموں کا کردار بھی ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ طلبا تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے نہ صرف سڑکوں پر کنٹرول سنبھال رکھا ہے، پارلیمنٹ کے اندر بھی قبضہ کئے رکھا، جبکہ وہ عبوری حکومت اپنی مرضی سے بنوانے کےلئے دباو بڑھا رہے ہیں، اور مطالبات پیش کررہے ہیں۔ انکا سب سے بڑا مطالبہ یہ سامنے آیا کہ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ بنایا جائے۔ اس دباو کو قبول کرتے ہوئے بنگلہ دیشی صدر شہاب الدین نے کابینہ تحلیل کرتے ہوئے محمد یونس کو عبوری سربراہ مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔
ان حالات میں سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کا کیا کردار ہوگا، جسکی رہنما معروف لیڈر خالدہ ضیا ہیں، جنہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے دوہزار اٹھارہ میں بدعنوانی کے الزام میں سترہ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تاہم موجودہ حالات میں صدر مملکت نے خالدہ ضیا سمیت متعدد سیاسی قیدیوں کی رہائی کا حکم دے دیا۔
اگرچہ حالات نارمل ہونے کی صورت میں خالدہ ضیا کے اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہونے کے امکانات تو واضح ہیں، لیکن طلبا تنظیموں کی ابھرتی ہوئی تحریک کیا رنگ اختیار کرتی ہے، اور کیا بھارت اپنی نظریاتی حریف خالدہ ضیا کو تسلیم کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ان دو پہلووں کے واضح ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی مستقبل قریب کی صورتحال واضح ہوپائے گی۔

Leave a reply