الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرپی ٹی آئی کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے،سپریم کورٹ

0
14

مخصوص نشستوں سےمتعلق سپریم کورٹ کے اکثریتی ججز نے تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا گیا ہےالیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کےامیدواروں کونوٹیفائی کرے، الیکشن کمیشن کےیکم مارچ کےفیصلےکی کوئی قانونی حیثیت نہیں اورپشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں ۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے،تفصیلی اکثریتی جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔
فیصلہ کےمطابق مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دیاگیا،اردو ترجمہ کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کریں،الیکشن میں بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے،انتخابی تنازعہ بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا،پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کہ آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے، پی ٹی آئی کےمطابق ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔
فیصلہ میں لکھاگیاکہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہیں ،الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور حکومت کا چوتھا ستون ہے،الیکشن کمیشن فروری 2024 میں اپنا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے ، تفصیلی فیصلے میں اٹھ ججز نے دو ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا۔
فیصلہ میں کہاگیاکہ جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں ،سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ریلیف دینے پر وضاحت بھی کر دی،پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی،عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے،عوام کی خواہش اور جمہوریت کے لیے شفاف انتخابات ضروری ہیں،تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے،الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز ہے، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتا ہے۔
تفصیلی فیصلہ کےمطابق بھاری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی ججز امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا،رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، سپریم کورٹ رول 94 کے تحت مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے،انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں،انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو،رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔
فیصلہ میں مزیدلکھاگیاکہ 2 ججز نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ 8ججز کا فیصلہ نہ مانیں،زیادہ پریشان کن بات یہ ہےکہ ججز اپنی رائےدیتےہوئےحدودسےتجاوز کرگئے، واضح قانون کے بغیر کسی کو سزا نہیں دی جا سکتی، آئین میں دیئے گئے حقوق کو کم کرنے یا قدغن لگانے والے قوانین کا جائزہ تنگ نظری سے ہی لیا جا سکتا ہے، جمہوریت میں انفرادی یا اجتماعی حقوق میں کم سے کم مداخلت یقینی بنانی چاہیے۔
اکثریتی فیصلہ میں کہاگیاکہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی سزا انتخابی نشان واپس لینے سے زیادہ کچھ نہیں، انتخابی نشان واپس لئے جانے کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی جماعت کے آئینی حقوق ختم ہو گئے، سپریم کورٹ بلے کے نشان والے کیس میں پارٹی کے آئینی حقوق واضح کرتی تو کنفیوژن پیدا ہی نہ ہوتی، الیکشن کمیشن نے بھی اپنے حکم نامہ میں پی ٹی آئی کے آئینی حقوق واضح نہیں کیے، عدالت اور الیکشن کمیشن کو مدنظر رکھنا چاہیے تھا کہ انتخابی شیڈیول جاری ہو چکا ہے،کسی سیاسی جماعت کے عہدے داران الیکشن ایکٹ کی شق 208 کے تحت منتخب ہوتے ہیں، منتخب عہدے داران کا سرٹیفکیٹ الیکشن ایکٹ کی شق 209 کے تحت جمع کرایا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کے انتخابات منظور کرنے یا نہ کرنے تک نو منتخب عہدے داران پارٹی کے معاملات سنبھالتے ہیں،انٹرا پارٹی انتخابات کی الیکشن کمیشن کی جانب سے نامنظوری پر پرانے عہدے داران بحال ہو جاتے ہیں، 14 ستمبر 2024 کی وضاحت کو اس فیصلے کا حصہ سمجھا جائے۔

Leave a reply