ٹک ٹاک حکمرانوں کے بدلتے رنگ

بلاگ: آنسہ الیاس
0
44

پاکستان میں نئی آنے والی ہر حکومت کو پچھلی حکومت کے شروع کیے گئے پراجیکٹس کو بند کرنے کا جنون کیوں ہوتا ہے ؟
آخر وہ کون سے محرکات ہیں جسکی وجہ سے ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کے پراجیکٹس کو برا تصور کرتی ہے ؟
ان سب سوالات کے جوابات جانیں گے آج ہم اس رپورٹ میں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک روایت دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے وہ پچھلی حکومت کے شروع کردہ پراجیکٹس کو یا تو ختم کردیتی ہے يا نظر انداز۔
اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔2014 میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت لیپ ٹاپ اسکیم کا آغاز کیا تھا۔مگر 2018 میں جب عمران خان برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے اس اسکیم کو بند کردیا ۔ صرف یہ ہی نہیں نواز حکومت نے عمران خان کے شروع کردہ احساس اسکالرشپ پروگرام کو متعدد بار بند کرنے کی کوششیں کیں ۔
یہ رویہ صرف حکومتی تبدیلیوں کی نشاندھی نہیں کرتا بلکہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت عوامی مفاد کی بجائے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتی ہے ۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایسے رویوں سے کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ جب کوئی منصوبہ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہو تو اسکا تسلسل برقرار رہنا چاہیے ۔ یہ بات قطعی اہم نہیں ہے کہ منصوبہ کس سیاسی جماعت نے شروع کیا بلکہ اہم یہ ہے کہ آیا عوام کو منصوبے سے فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں۔حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن اگر کوئی منصوبہ عوامی فلاح و بہبود کے لئے ہے تو اسے بند نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہمارے ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
آخر عوام کے نام پر آئی ایم ایف سے قرض لے کر عوام کو ہی کیوں ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے ؟
پاکستان میں اب یہ ٹرینڈ بن چکا ہے کہ جو بھی پراجیکٹ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے شروع کیا جاتا ہے اُسکے لیے آئی ایم ایف سے قرض لیا جاتا ہے مگر عوام کوملتا کچھ نہیں۔ ہر رمضان المبارک میں راشن اسکیم اور سستے رمضان بازار کا اجرا کیا جاتا ہے ۔ اور اس کے لیے حکومت لاکھوں روپے کی سبسڈی بھی دیتی ہے ۔ مگر اسکے باوجود بھی عوام کو لمبی قطاروں میں لگ کر دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اور تو اور ہمارے ملک میں غربت کا یہ عالم ہے کہ آٹے کے ایک تھیلے کے لئے بھی عوام کو اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ صرف یہ ہی نہیں اہم شخصیات اور صاحبِ ثروت لوگ عوام کی مدد کرتے وقت ویڈیوز اور تصاویر بنانا نہیں بھولتے۔ غریب عوام نہیں چاہتے کہ انکی تصاویر بنیں تو اس پر امداد دینے والے نام نہاد سیاستدان شرط رکھ دیتے ہیں کہ ہماری تعریف کرو گے ، ہمارے ٹک ٹاک میں آؤ گے تو مدد ملے گی ورنہ چلتے بنو۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ ووٹ دیتے ہوئے ویڈیو، اسمبلی میں داخل ہوتے ہوئے ٹک ٹاک، واپس جاتے ہوئے تصاویر اور دورانِ سیشنز سیلفیز بنانے والے آخر قانون سازی کب کرتے ہوں گے ؟
یہ ہی صورتِ حال برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہر ادارے اور اسمبلی میں ایک ٹک ٹاک ڈویژن اور سیلفی بوتھ بنانے کی قرار داد نہ آجائے۔

Leave a reply