سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کا محفوظ فیصلہ سنا دیا، جس میں حکومت کی نیب ترامیم قانون بحال جبکہ عمران خان کےحق میں فیصلہ مستردکردیاگیا۔
سپریم کورٹ نےنیب ترامیم انٹراکورٹ اپیلوں پرسماعت کاتحریری فیصلہ جاری کردیا،سپریم کورٹ نے سولہ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نےتحریرکیا۔چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےفیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ کو بھی حصہ بنایا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کااضافی نوٹ:
جسٹس اطہرمن اللہ کےنوٹ میں مزید کہاگیاکہ پرائیویٹ فریقین کی انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے منظور کی جاتی ہیں۔ وفاقی حکومت کا استحقاق نہیں تھا کہ انٹرا کورٹ اپیل دائر کرے۔ اپیل صرف متاثرہ فریق ہی دائر کر سکتا ہے۔
جسٹس اطہرمن اللہ کےنوٹ میں کہاگیاہےکہ چیف جسٹس کے فیصلہ سے اتفاق کرتا ہو۔حکومتی اپیلیں پریکٹس پروسیجر قانون کےتحت قابل سماعت نہیں۔ججز اور آرمی فورسز کے ارکان کو نیب قانون سے استثنیٰ حاصل نہیں۔حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔اضافی نوٹ کی تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلہ جاری کرتے ہوئے نیب ترامیم کیس میں حکومت کی اپیلیں منظور کرلیں اور نیب ترامیم درست قرار دے دیں۔ عدالت نے سابقہ پی ڈی ایم حکومت میں کی گئی نیب ترامیم کو بحال کردیا۔
عدالتی فیصلے میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور مستعفی جج اعجاز احسن کا اکثریتی فیصلہ کالعدم قرار دیدیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ ترامیم بحال کرنے کا فیصلہ متفقہ ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصلے میں کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اضافی نوٹس تحریر کیے ہیں۔
سپریم کورٹ کےمتفقہ فیصلہ میں لکھاگیاکہ نیب قانون سابق آرمی چیف (ر)پرویز مشرف نے زبردستی اقتدار میں آنے کے 34 دن بعد بنایا، پرویز مشرف نے آئینی جمہوری آرڈر کو باہر پھینکا اور اپنے لئے قانون سازی کی،پرویز مشرف نے اعلیٰ عدلیہ کے ان ججز کو ہٹایا جنہوں نے غیر آئینی اقدام کی توسیع نہیں کی،پریکٹس پروسیجر قانون نیب ترامیم درخواست پر فیصلہ سے پانچ ماہ پہلے بنایا گیا۔نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر پانچ رکنی بنانے کی استدعا کو مسترد کیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے نشاندہی کی نیب ترامیم پر پانچ رکنی بینچ بنایا جائے۔
متفقہ فیصلہ میں کہاگیاکہ نیب ترامیم کو خلاف قانون ثابت نہیں کیا جا سکا۔سپریم کورٹ کو قانون سازی کو ہر ممکن صورت میں برقرار رکھنا چاہیے،حکومت اور متاثرہ فریقین کی جانب سے دو دو انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی گئی تھیں ۔زوہیر احمد صدیقی اور زاہد عمران نے متاثرہ فریق کے طور پر انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھی،عمران خان کی نیب ترامیم کیخلاف درخواست مستردکردی گئی۔
متفقہ فیصلہ میں کہاگیاکہ چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز کا کام پارلیمنٹ کے گیٹ کیپر کا نہیں، آئینی اداروں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہئے، پارلیمنٹ کی قانون سازی کو کالعدم قرار نہیں دیا جانا چاہیے،اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خلاف آئین قانون سازی کو بھی کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا، بانی پی ٹی آئی ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ نیب ترامیم خلاف آئین تھیں۔
متفقہ فیصلہ میں کہاگیاکہ جسٹس منصور علی شاہ خود کو بینچ سے الگ کر لیتے تو دو ممبر نیب ترامیم کیخلاف درخواست کو سن سکتا نہ فیصلہ کر سکتا۔جسٹس عمر عطا کے بینچ نے پریکٹس پروسیجر قانون کے آپریشن کو معطل کیا۔ پریکٹس پروسیجر قانون کو معطل کرنے کے بعد کیس دوبارہ نہیں سنا گیا۔پریکٹس پروسیجر قانون کیخلاف درخواستوں کو 18 ستمبر 2023 پر سماعت ہوئی۔مشرف دور میں بنائے گئے قانون کے دیباچہ میں لکھا گیا کہ نیب قانون کا مقصد کرپشن کا سدباب ہے ، جن سیاستدانوں یا سیاسی جماعت نے پرویز مشرف کو جوائن کیا انہیں بری کردیا گیا،نیب قانون کا اصل مقصد سیاستدانوں کو سیاسی انتقام یا یا سیاسی انجنئیرنگ تھا، آئین میں عدلیہ اور مقننہ کا کردار واضح ہے۔ عدلیہ اور مقننہ کو ایک دوسرے کی دائرہ کار میں مداخلت پر نہایت احتیاط کرنی چاہیے ۔
سپریم کورٹ کےمتفقہ فیصلہ میں لکھاگیاکہ آئین میں دئیے گئے فرائض کی انجام دہی کے دوران بہتر ہے کہ ادارے عوام کی خدمت کریں۔سپریم کورٹ کو قانون سازی کو جلد ختم کرنے کی بجائے اس کو بحال رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اگر کسی قانون کی دو تشریحات ہوں تو قانون کے حق میں آنے والی تشریح کو تسلیم کیا جائے گا ۔درخواست اور سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں۔ موجودہ مقدمہ میں بھی ترامیم غیر آئینی ہونے کے حوالے سے ہم قائل نہیں ہو سکے ۔ان ترامیم میں سے بہت سے ترامیم کے معمار عمران نیازی خود تھے ۔
متفقہ فیصلہ میں کہاگیاکہ بانی پی ٹی آئی نے نیک نیتی سے درخواست دائر نہیں کی ۔نیب فیصلہ میں نہیں بتایا گیا کہ نیب ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم کیسے ہیں۔ محض بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہہ دینے سے آرٹیکل 184/3 کا اختیار استعمال نہیں کیا جا سکتا۔بانی پی ٹی آئی اور وکیل خواجہ حارث ترامیم بنیادی حقوق سے متصادم ہونے پر مطمئن نہیں کر سکے۔پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے۔جب تک قانون کالعدم نہ ہو سپریم کورٹ و دیگر عدالتیں قانون پر عمل کی پابند ہے۔جب تک قانون کالعدم نہ ہو اس کا احترام ہونا چاہیے۔
فیصلہ میں لکھاگیاکہ پارلیمنٹ آئین سے منافی قانون بنائے تو عدالت کا کالعدم کرنے کا اختیار ہے۔تین رکنی بینچ کے اکثریتی ججز نے ترامیم کو آئین کے تناظر میں جائزہ نہیں لیا۔ججز اپنے حلف کے مطابق آئین و قانون کے پابند ہے۔
وی پی این پرپابندی کامعاملہ:عدالت نےجواب طلب کرلیا
نومبر 22, 2024
Leave a reply جواب منسوخ کریں
اہم خبریں
پاکستان ٹوڈے ڈیجیٹل نیوز پر شائع ہونے والی تمام خبریں، رپورٹس، تصاویر اور وڈیوز ہماری رپورٹنگ ٹیم اور مانیٹرنگ ذرائع سے حاصل کی گئی ہیں۔ ان کو پبلش کرنے سے پہلے اسکے مصدقہ ذرائع کا ہرممکن خیال رکھا گیا ہے، تاہم کسی بھی خبر یا رپورٹ میں ٹائپنگ کی غلطی یا غیرارادی طور پر شائع ہونے والی غلطی کی فوری اصلاح کرکے اسکی تردید یا درستگی فوری طور پر ویب سائٹ پر شائع کردی جاتی ہے۔