ناتجربہ کارسرجن اور پی سی بی میں سرجری

تحریر: اریز اقبال 
0
48

قسمت ہو تو محسن نقوی جیسی ہو، وہ جو چاہ رہے ہیں، پارہے ہیں، پہلے نگران وزیراعلی پنجاب بنے، پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے، پھر سینیٹر اور پھر وفاقی وزیر داخلہ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ کیریئر کے کسی حصے میں وہ ڈاکٹر بھی بننا چاہتے تھے، لیکن شاید میرٹ پر یہ ممکن نہ ہوسکا، اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر نہ بن سکا تو کیا ہوا، پاکستان میں سرجری کے لیے ڈاکٹر ہونا ضروری تو نہیں اور اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے پاکستان کرکٹ ٹیم کی سرجری کا اعلان کردیا، مگر خدشہ ہے کہ ناتجربہ کاری کے سبب وہ مریض کا غلط علاج نہ کرلیں۔

1999 ہرورلڈ کپ یا بڑے ایونٹ کے بعد ٹیم اور پی سی بی میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ پہلے بھی ہوتی رہی ہے، کبھی صرف کپتان تبدیل ہوا ہے تو کبھی پوری ٹیم اور کوچنگ اسٹاف اور سلیکٹرز کا گھر جانا تو طے ہی ہوتا ہے اس لیے اس بار اگر ایسا ہورہا ہے تو کچھ اچھنبے کی بات نہیں ہے، مگر ہاں اس بار جو طریقہ اپنایا جارہا ہے وہ کچھ الگ، نیا اور عجیب سا ہے۔
جب محسن نقوی صاحب نے یہ فیصلہ کیا کہ سلیکشن کمیٹی میں کوئی سربراہ نہیں ہوگا تو اسی بات پر اعتراض تھا کیونکہ جب تک کسی کمیٹی یا گروپ کا کوئی نگران نہ ہو تو ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟ ایسی صورت میں تو سب کے سب ذمہ دار ہونے چاہییں چاہے نتیجہ اچھا آئے یا بُرا، مگر حیرانی کی بات دیکھیے کہ سرجری کا آغاز اس بے ڈھنگے انداز میں ہوا کہ سلیکشن کمیٹی کے کچھ افراد کو فارغ کردیا گیا اور باقیوں کو کہا کہ آپ ٹھیک ہیں، اب یہ فیصلہ کس فارمولے کے تحت ہوا، محسن نقوی کے علاوہ شاید ہی یہ کوئی بات جانتا ہو۔
اس فیصلے کے بعد وہاب ریاض اور عبدالرزاق دونوں نے یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر کمیٹی میں 6 سلیکٹرز تھے تو صرف 2 کو کیوں باہر کیا گیا؟ یہ اعتراض تو دونوں کا ہی ٹھیک ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ناتجربہ کاری کے سبب سرجری کے آغاز میں ہی غلطی ہوگئی ہے، اور اگر ہر قدم میں یہ جلد بازی اور غلطیاں ہوئیں تو خدشہ ہے کہ مریض کی حالت ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب نہ ہوجائے۔
ایک اور مزے کی بات یہ ہوئی کہ گزشتہ روز وہاب ریاض اور عبدالرزاق کو فارغ کرنے کا فیصلہ ہوا اور آج ایک نیا فارمولہ سامنے آیا ہے جس میں سلیکشن کمیٹی کی ایک نئی شکل سامنے آئی ہے۔ اب نئی سلیکشن کمیٹی میں دونوں فارمیٹ کے کوچز اور کپتان کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور کوچز کے علاوہ محمد یوسف اور اسد شفیق بھی کمیٹی میں شامل ہوں گے۔
محمد یوسف سے یاد آیا کہ موصوف تو گزشتہ کئی سال سے کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہیں، کبھی وہ بیٹنگ کوچ ہوتے ہیں تو کبھی سلیکٹر، مگر ان کی جانب سے نتیجہ صفر سے آگے اب تک نہ بڑھ سکا ہے، لیکن ان سب کے باوجود آج بھی وہ ٹیم کے ساتھ ہیں اور انہیں ہٹانے کا نہ کوئی سوچ رہا ہے اور نہ کہیں سے کوئی مطالبہ ہورہا ہے، اب ایسا کیوں ہے، میں بھی اس بارے میں سوچتا ہوں اور آپ بھی سوچیے۔
یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ چونکہ سرجن کمزور ہے اور اسے زیادہ تجربہ نہیں ہے اسی لیے شاید وہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے سے گھبرا رہا ہے اس لیے ہر کسی سے مشورہ کررہا ہے۔ اب دیکھیے نہ چند دن پہلے سابق کپتانوں کی پوری کمان سے ملاقات کی، مگر کمال دیکھیے ان میں سے شاید ہی کوئی جدید کرکٹ سے متعلق جانکاری رکھتا ہو، یہ سب وہ ہیں جنہیں کرکٹ کھیلے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ ریڈیو کے زمانے کے فرد سے آپ پوچھیں کہ چیٹ جی پی ٹی کیسے کام کرتی ہے، لیکن چونکہ سرجن کو ہر چیز کا مکمل اختیار ہے، اس لیے وہ یہ سب کچھ کرسکتا ہے۔
پھر جب سے اس سرجری کی خبریں گردش کررہی ہیں، تماشے عروج پر ہیں۔ ایک طرف محمد رضوان نے پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے محسن نقوی کو سپر مین ڈیکلیئر کرتے ہوئے کہا کہ سرجری کرنا چیئرمین کا اختیار ہے اور بلا شبہ وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ٹیم کی بہتری کے لیے ہی کریں گے تو دوسری طرف شاہین شاہ آفریدی نے لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا کوئی بیمار ہے جو سرجری کی باتیں ہورہی ہیں۔
ایک ہی ٹیم کے 2 کھلاڑی 2 مختلف بیانات دے رہے ہیں۔ ان 2 بیانات میں سمجھنے کی بھی 2 باتیں ہیں۔ ایک کھلاڑی جسے کپتان بناکر ہٹادیا گیا وہ کہتا ہے کہ کیا کوئی بیمار ہے، اور دوسرا کھلاڑی جسے اگلا کپتان بنانے کی باتیں ہورہی ہیں وہ چیئرمین کو سپر مین بنا رہا ہے کہ شاید کسی کو یہی ادا پسند آجائے۔
مگر اس پوری صورتحال میں موجودہ کپتان بابر اعظم خاموش ہیں کہ شاید انہیں ایک اور لائف لائن ملنے کی امید دلا دی گئی ہے کیونکہ جب بھی محسن نقوی سے کپتان کی تبدیلی سے متعلق سوال ہوا وہ خاموش ہی رہے اور اب وقت جس تیزی کے ساتھ نکل رہا ہے، لگ ایسا یہی رہا ہے کہ بابر چیمپیئنز ٹرافی تک کپتان رہ سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر بابر مزید کپتان رہتے ہیں تو کیا ہوگا؟ ممکن ہے کچھ لوگ میری اس رائے سے اختلاف کریں لیکن پھر بھی اپنی بات کرلیتا ہوں کہ اگر بابر مزید کپتان رہتے ہیں تو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے بس ہمارے ہاتھ سے ایک اور بڑا ایونٹ نکل جائے گا، مگر اچھی بات یہ ہے کہ بابر نے ہمیں ہار کی اتنی عادت کروا دی ہے کہ اگر پھر کوئی ایسا دھچکا لگا ہم برداشت کر ہی لیں گے۔
عام طور پر پاکستان میں رپورٹس کو چھپانے کا رجحان کچھ زیادہ ہی ہے، مگر پاکستان کرکٹ میں موجود مسائل کو حل کرنے کا بظاہر ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے اور وہ یہ کہ چیئرمین عرف سرجن صاحب کو کوچ اور سلیکشن کمیٹی کی جانب سے جو بھی رپورٹ پیش ہوئی ہیں وہ عوام کے سامنے پیش کردی جائیں، اس بات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا جانا ضروری ہے کہ ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی بدترین شکست کے ذمہ دار کون لوگ ہیں، جب تک یہ کام نہیں ہوگا، تب تک ایسے دل شکستنہ نتائج ملتے رہیں گے

Leave a reply