اپیل کا حق دینا یا نہ دینا اب جوڈیشل کمیشن کے اختیار میں آ چکا ہے،جسٹس عائشہ ملک

26ویں ترمیم کےکیس میں ریمارکس دیتےہوئےجسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کا حق دینا یا نہ دینا اب جوڈیشل کمیشن کے اختیار میں آ چکا ہے۔
سپریم کورٹ میں 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آٹھ رکنی آئینی بینچ نےسماعت کی ، آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندو خیل ،جسٹس محمد علی مظہر شامل جبکہ جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کاحصہ تھیں، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ میں شامل ہیں۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری عدالت میں پیش ہوئے۔
سپریم کورٹ بارز کے سابق صدور کے وکیل عابد زبیری نے کیس کی سماعت کے دوران دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔ سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ انٹرنیٹ کے مسائل کے باعث ویڈیو لنک کے ذریعے براہِ راست نشریات ممکن نہیں ہوں گی، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی نشاندہی کی کہ لائیو اسٹریمنگ کا لنک ڈاؤن ہے۔
عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ کوئی فریق کسی جج پر اعتراض نہیں کر سکتا اور مقدمہ سننے یا نہ سننے کا اختیار صرف جج کے پاس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ درخواست فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ صرف ان ججز کی بات کریں جو آئینی ترمیم سے قبل سپریم کورٹ میں موجود تھے۔
جس پر وکیل نے مؤقف اپنایا کہ آئینی ترمیم سے پہلے تعینات شدہ ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دی جائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایک طرف آپ فل کورٹ کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف صرف 16 ججز کی، پہلے یہ واضح کریں کہ آپ کی اصل استدعا کیا ہے۔
عابد زبیری نے اپنے دلائل میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا حوالہ دیا اور کہا کہ موجودہ آٹھ رکنی بینچ میں اپیل کا حق دستیاب نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق آئینی بینچ کے لیے 15 ججز نامزد ہیں، جبکہ اپیل کی سماعت کے لیے مزید 9 ججز کی ضرورت ہوگی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اپیل کا حق دینا یا نہ دینا اب جوڈیشل کمیشن کے اختیار میں آ چکا ہے، کمیشن چاہے تو اضافی ججز نامزد کر کے اپیل کا حق دے سکتا ہے، بصورت دیگر یہ حق واپس بھی لیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ براہِ راست عدلیہ کی آزادی کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپیل کا حق تو 16 رکنی بینچ میں بھی موجود نہیں ہوگا۔ وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ پہلے بھی کہہ چکی ہے کہ اگر فیصلہ اجتماعی دانش پر مبنی ہو تو اپیل کا حق ضروری نہیں رہتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ کچھ وکلا نے یہاں تک کہا ہے کہ آرٹیکل 191-A کو نظر انداز کر کے کیس سنا جائے، مگر یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ آئین کی کسی شق کو کیسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے نشاندہی کی کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ اگر کوئی شق چیلنج ہو تو اس کا اطلاق کیسے محدود کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ان سوالات کا جواب وکیل عابد زبیری کو دینا چاہیے۔
عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 2025 کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے اور آرڈر 11 کے تحت بینچز کی تشکیل کمیٹی کے ذریعے ہوگی۔
جسٹس مندوخیل نے جواب دیا کہ ان قواعد میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ بینچز چیف جسٹس بنائیں گے۔
وکیل نے مؤقف اپنایا کہ فل کورٹ بینچ نہیں ہوتا اور آج تک فل کورٹ کیسے تشکیل دیے جاتے رہے، اس پر ججز کی فیصلے موجود ہیں۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر فل کورٹ کی تشکیل ضروری تھی تو اسے 2025 کے قواعد میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 24 ججز کے سامنے یہ قواعد بنے تھے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہ قواعد سب کے سامنے نہیں بنے اور ان کا نوٹ اس پر موجود ہے۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ میٹنگ منٹس منگوائے جائیں، تمام ججز سے رائے لی گئی تھی۔
جسٹس عائشہ نے کہا کہ اگر آپ ریکارڈ مانگ رہے ہیں تو منگوائیں۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ کیس اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک یہ معاملہ واضح نہ ہو جائے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے، اسے یہاں زیربحث نہ لایا جائے۔
جسٹس مندوخیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہاں مجھے جھوٹا کہا جا رہا ہے، 24 ججز کی میٹنگ ہوئی تھی اور کچھ شقیں کمیٹی کے سپرد کی گئی تھیں۔ چند ججز نے اپنی رائے دی تھی، جبکہ کچھ نے نہیں دی۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کمیٹی کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہے، لیکن فل کورٹ بنانے کا اختیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اختیارات چیف جسٹس کے اختیارات نہیں کہلائے جا سکتے، دونوں کی نوعیت الگ ہے۔ ہم یہاں بینچز نہیں بلکہ فل کورٹ کی بات کر رہے ہیں۔
جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ کیا چیف جسٹس وہ فل کورٹ تشکیل دے سکتے ہیں جس میں آئینی بینچ کے تمام ججز شامل ہوں؟
وکیل عابد زبیری نے مؤقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس کے پاس تاحال فل کورٹ تشکیل دینے کا اختیار موجود ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ وکیل عابد زبیری کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔