میڈیا انڈسٹری کے بدلتے ہوئے رجحانات

تحریر: آنسہ شہزاد ی
0
64

 

آج کا دور تھیوری لرننگ کا نہیں بلکہ سکلز لرننگ کا دور ہے۔ اور سکلز لرننگ ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ سکلز کے بغیر کوئی بھی شخص کسی بھی شعبے میں زیادہ عرصہ تک کام نہیں کر سکتا۔ صحافت کے طالب علموں کا مسئلہ ہمیشہ سے میڈیا انڈسٹری رہا ہے۔ اور یہ مسئلہ نیا نہیں بلکہ بُہت پرانا ہے ۔ یہ مسئلہ آج بھی ایسے ہی موجود ہے جیسے کہ آج سے بیس سال قبل موجود تھا۔ بُہت سی یونیورسٹیز میں میڈیا اسٹڈیز کے شعبے میں آج بھی وہی تھیوریٹیکل کورسز پڑھائے جاتے ہیں جو کہ اب حقیقی صحافت میں ناپید ہو چکے ہیں۔ جب یہی بچے فیلڈ میں جاب کے لئے جاتے ہیں تو مارکیٹ انکو قبول نہیں کرتی۔ دنیا میں روز بروز تبدیلی ہو رہی ہے۔
ایک وقت تھا کہ اخبار ہر گھر میں موجود ہوتا تھا۔ اور اخبار ہی خبریں اور ہر طرح کی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ تھا۔ لیکن اسکے بعد دنیا میں ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کروائی گئی، جسکو ہم سب ریڈیو کے نام سے جانتے ہیں۔ ریڈیو نے اخبار کی جگہ لے لی۔ اب لوگوں نے اخبار پڑھنے کے بجائے ریڈیو سننا شروع کردیا ۔ ریڈیو کے بعد جب ٹیلی ویژن مارکیٹ میں آیا تو صحافت کے ڈائنامکس ہی تبدیل ہو گئے۔وہ لوگ جو اخبار میں کام کر رہے تھے شروع میں اُنکے لیے ٹیلی ویژن ناقابلِ قبول تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ بُہت سے لوگ آج بھی کم پیسوں پر اخبار میں ہی کام کر رہے ہیں ۔ اور اب ڈیجیٹل میڈیا کے آنے کے بعد دنیا مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔
یہ کہا جاتا ہے کہ تبدیلی کوئی بھی ہو وہ انسان کی بھلائی کے لئے ہی ہوتی ہے۔ تبدیلی سے انسان کو ہمیشہ زیادہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔ مگر بد قسمتی سے بُہت سی یونیورسٹیز میں ماس کمیونیکیشن کے کورسز میں آج بھی تبدیلی نہیں کی گئی ۔ طلبہ کو آج بھی صرف تھیوریٹیکل کورسز ہی پڑھائے جاتے ہیں۔ ابتداء سے ہی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ میڈیا اسٹڈیز یا ماس کمیونیکیشن کا مطلب ’’صحافت‘‘ ہے۔ حالانکہ حقیقت اسکے برعکس ہے ۔ میڈیا اسٹڈیز ایک کثیر الشعبہ ڈیپارٹمنٹ ہے۔اورصحافت میڈیا اسٹڈیز کا صرف ایک جُز ہے۔ میڈیا اسٹڈیز میں صحافت کے علاوہ دیگر اہم علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ پبلک ریلیشنز ، ایڈورٹائزنگ ، فوٹوگرافی ، ویڈیوگرافی، کانٹینٹ رائٹنگ ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا مارکیٹنگ بھی میڈیا اسٹڈیز کا حصہ ہیں۔
ماس کمیونیکیشن یا میڈیا اسٹڈیز کی ڈگری ہر یونیورسٹی میں تین کریڈٹ آورز کی ہے۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ کریڈٹ آورز چار ہونے چاہیے۔ تاکہ طلبہ کو پریکٹیکل سکلز سیکھنے کا موقع مل سکے۔ڈاکٹرز اور کیمیادان وغیرہ لیب پریکٹس کرتے ہیں۔ لیکن میڈیا اسٹڈیز کے طالب علموں کو عموماً لیب پریکٹس کا موقع نہیں ملتا ۔ اور اسی وجہ سے طلبہ شارٹ کورسز وغیرہ کرتے ہیں اور ڈگری کے علاوہ انکی بھاری فیسیں الگ سے ادا کرتے ہیں۔میڈیا کے ٹرینڈز اب مکمل طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔اور یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹیز ماس کمیونیکیشن کے طلبہ کو پریکٹیکل سکلز سکھانے کے لیے اقدامات کرے ۔ تاکہ جب وہ مارکیٹ میں کام کرنے کے لیے جائیں تو انہیں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یونیورسٹیز کو چاہیے کہ وہ طلبہ کو مختلف پریس کلبز، نیوز رومز، ایڈورٹائزنگ ایجنسیز ، پبلک ریلیشن آفسز میں کام کرنے کے مواقع فراہم کرے تاکہ انکی بہتر طور پر لرننگ ہو سکے۔

Leave a reply